یَا وَیْلَتَى لَیْتَنِی لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیلًا ۞ لَّقَدْ أَضَلَّنِی عَنِ الذِّکْرِ بَعْدَ إِذْ جَاءَنِی وَکَانَ الشَّیْطَانُ لِلْإِنسَانِ خَذُولًا ۞ہائے افسوس-کاش میں نے فلاں شخص کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا ۔ اس نے تو ذکر کے آنے کے بعد مجھے گمراہ کردیا اور شیطان تو انسان کا رسوا کرنے والا ہے ہی ۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسان کی سیرت اور شخصیت کی تعمیری عوامل میں اس کے اپنے ارادے منشا اور خواہش کے بعد اور بھی بہت سے مختلف امور شامل ہوتے ہیں جن میں سب سے زیادہ اہم موٴثر عامل اس کا دوست اور ہم نشین ہوتا ہے کیونکہ انسان چار و ناچار اس کا اثر ضرور قبول کرتا ہے نیز اپنے اکثر و بیشتر افکار اور اخلاقی صفات اپنے دوستوں اورہم نشینوں سے حاصل کرتا ہے۔
خداوند متعال قرآن کریم فرماتا ہے کہ قیامت کے روز یہ ظالم لوگ بڑے افسوس کے ساتھ کہیں گے :”وای ہو مجھ پر کاش کہ میں فلاں گمراہ شخص کو اپنا دوست نہ بنا یا ہوتا( یَاوَیْلَتِی لَیْتَنِی لَمْ اٴَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیلًا)
ظاہر ہے کہ ”فلاں سے مراد وہ شخص ہے جو اسے گمراہی کی طرف کھینچ لایا تھا خواہ وہ شیطان تھا یا برا دوست اور گمراہ رشتہ دار وغیرہ.
در حقیقت یہ آیت اور اس سے پہلے والی آیت نفی اور اثبات کی دو مختلف حالتیں بیان کررہی ہیں ایک جگہ کہتا ہے اے کاش ! میں نے پیغمبر کا رستہ اختیار کیا ہوتا اور دوسری جگہ کہتا ہے : اے کاش ! میں نے فلاں شخص کو اپنا دوست نہ بنا یا ہوتا ۔
سلسلہ کلام جاری ہے آگے فرماتا ہے کہ وہ کہے گا : بیداری اور علم و آگہی میرے پاس آچکی تھی (سعادت اور خوش بختی نے میرا دروازہ بھی کھٹکھٹایا تھا )لیکن اس بے ایمان دوست نے مجھے گمراہ کیا( لَقَدْ اٴَضَلَّنِی عَنْ الذِّکْرِ بَعْدَ إِذْ جَائَنِی )۔
اگر ایمان اور سعادت ابدی سے زیادہ دور ہوتا پھر تو افسوس کی کوئی ایسی بات ہی نہیں تھی لیکن میں اس سعادت ِ جاودانی کی سر حد کے بالکل قریب پہنچ چکا تھا صرف ایک قدم کا فاصلہ باقی تھا کہ اس ہٹ دھرم متعصب اور دل کے اندھے شخص نے مجھے چشمہ ٴ آبِ حیات کے کنارے سے پیا سا پلٹا کر بد بختی اور گمراہی کے دلدل میں ہمیشہ کے لئے پھنسا دیا۔
مندر جہ بالا جملے میں مذکورہ لفظ ” ذکر کے وسیع معنی ہیں اور آسمانی کتابوں کی تمام آیات خدا وندی اس کے مفہوم میں شامل ہیں بلکہ وہ ہر چیز جو انسان کی بیداری اور آگہی کا سبب بنتی ہے اس میں آجاتی ہے ۔
آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے :شیطان تو انسان کو ہمیشہ سے چھوڑتا رہا ہے (وَکَانَ الشَّیْطَانُ لِلْإِنسَانِ خَذُولًا)۔
کیونکہ وہ انسان کو کھینچ تان کر غلط راستے پرڈال دیتا ہے اور خطرناک مقام پر پہنچا کر اسے حیران و سر گرداں چھوڑ کر اپنی راہ لیتا ہے ۔
توجہ رہے کہ ”خذول مبالغہ کا صیغہ ہے جس کا معنیٰ ہے بار بار چھوڑ نے والا۔” خذلان کی حقیقت یہ ہے کہ کوئی شخص کسی کی امداد کے لئے عہد کرے لیکن نہایت ہی حساس لمحات میں اس کی امداد ست ہاتھ اٹھالے ۔
آیا اس آیت کا یہ آخری جملہ ” وَکَانَ الشَّیْطَانُ لِلْإِنسَانِ خَذُولاً قول خدا وندی ہے جو کہ تمام ظالموں اور گمراہوں کو تنبیہ کی صورت میں بیان ہوا ہے یا بروزِ قیامت ان حسرت زدہ لوگوں کے قول کا ایک حصہ ہے جو تتمّہ کے طور پر بیان ہوا ہے۔
اسلامی نقطہ نظر سے دوستی کے اثر کی اہمیت تو اس حد تک ہے کہ اسلامی روایات میں خداکے نبی حضرت سلیمان علیہ السلام سے یوں منقول ہے :
لاتحکمواعلی رجل بشیء حتی تنظروا الیٰ من یصاحب ، فانما یعرف الرجل باشکالہ و اقرانہ و ینسب الیٰ اصحابہ و اخدانہ
جب تک کسی انسان کے دوستوں کو صحیح طرح نہ دیکھ لو تو اس وقت تک اس کے بارے میں کوئی رائے قائم نہ کرو کیونکہ انسان اپنے دوست و احباب اور یار و انصار سے پہچانا جاتا ہے (1) ۔
امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کا ایک فصیح و بلیغ ارشاد ہے :۔
و من اشتبہ علیکم امرہ ولم تعرفوا دینہ ، فانظروا الیٰ خلطائہ فان کانوا اھل دین اللہ فھو علی دین اللہ ، و ان کا نوا علی غیر اللہ فلاحظ لہ من دین اللہ۔
جب کسی شخص کی کیفیت اور حقیقت ِ حال کو نہ پہچان سکو اور اس کے دین کے متعلق بھی تمھیں معلوم نہ ہو سکے تو اس کے دوست و احباب کو دیکھ لیا کرو و اگر وہ ٓخدا کے دین کے پابند ہیں تو وہ بھی دین الہٰی کا پیروکار ہو گا اور اگر وہ اہل دین نہیں ہیں تو اس کا بھی دین میں کوئی حصہ نہیں ہے (2) ۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ بسا اوقات کسی شخص کی نیک بختی یا بد بختی کے لئے اسکے دوست کید وستی سب عوامل سے موثر عامل ہوتی ہے یا تو یہ دوستی اسے فنا کی سر حدوں تک لے جاتی ہے اوریا پھر اعزاز ا فتخار کی بلندیوں تک جا پہنچاتی ہے ۔
مذکورہ بالا آیت اور ان کی شانِ نزول سے صاف ظاہر ہے کہ انسان سعادت اور خوش بختی کی بلندیوں کو چھو سکتاہے لیکن ایک دوست کی طرف سے صرف ایک شیطانی وسوسہ کی طرح اسے ہلاکت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈال دیتا ہے کہ جس پر وہ حسرت کریگا اور بروز قیامت اپنے ہاتھوں کو اپنے دانتوں سے کاٹے گا اور ” یا ویلتی کی فریادیں بلندکرے گا ۔
چنانچہ حضرت محمد تقی جواد علیہ السلام فرماتے ہیں :۔
ایاک و مصاحبة الشریر فانہ کالسیف المسلول یحسن منظرہ ویقبح اثرہ
برے شخص کی ہم نشینی سے بچو کیونکہ وہ شمشیر بر ہنہ کی مانند ہوتا ہے جس کا ظاہر خوبصورت اور اثر بہت خطر ناک ہو تا ہے (3) ۔
پیامبر اکرم فرماتے ہیں :
اربع یمتن القلب :الذنب بالدنب ومجالسة الموتی، وقیل لہ یا رسول اللہ و ما الموتی؟ قال کل غنی مترف
چار چیزریں انسانی دل کو مردہ کردیتی ہیں ،گناہ کاتکرار (یہاں تک کہ فرمایا ) مردوں کے ساتھ ہم نشینی ،کسی نے پوچھا حضور!وہ مردے ہیں ؟فرمایا وہ دولتمند جو اپنی دولت کے نشے میں مست ہوتے ہیں(4) ۔
1 ۔ سفینة البحار جلد ۲ ص ۲۷ (مادہ”صدق)۔
2۔ بحار الانوار جلد ۷۴ ص ۱۹۷۔
3 ۔ بحار الانوار جلد ۷۴ ص ۱۹۸۔
4 ۔ فصال صدوق ( منقول از بحار الانوار جلد ۷۴ ص ۱۹۵)۔